Pages

Tuesday, September 17, 2013
اولاد


تو صاحبو یہ اولاد بھی عجیب نعمت ہے۔ بچے مجھے ہمیشہ سے پسند تھے۔ لیکن صرف وہ جو مجھ سے انٹریکٹ کریں۔ کیونکہ میں پوزیسو طبعیت کا مالک نہیں لیکن اپنے بچے کی بات ہی الگ ہے۔ اپنے بچے سے دل کی ہر تار جڑ جاتی ہے۔ خطرہ نہ بھی ہو تو سوچ سے ہی دل دھڑک اٹھتا ہے۔ اور ہلکی سی مسکراہٹ سے دل خوشی سے بھر کر پھول کر دوگنا ہو جاتا۔
ابھی پچھلے ہفتے  میں ایک ڈاکیومینٹری سنو بےبیز دیکھ رہا تھا ہر بچے کو خطرے پر دل دھڑک اٹھتا تھا اور بے اختیار دل دعا کرنے لگتا تھا کہ یا اللہ اس بچے کو کچھ نہ ہو۔ صاحب اولاد ہونا نعمت ہو یا نہ لیکن اولاد کے بعد انسان مکمل طور پر تبدیل ہو جاتا ہے
http://channel.nationalgeographic.com/galleries/snow-babies/at/discovering-some-independence-1511660/

Tuesday, April 02, 2013
جان پدر


مجھے کبھی پہلی نظر میں محبت نہیں ہوئی۔ پر اب ہو گئی ہے۔ محبت بارے سارے میرے نظرئے اٹھا کر ردی میں پھینک دئے اور گھر میرے دل میں کر لیا۔ میں نے کبھی کسی کو بغیر انٹرایکشن لفٹ نہیں کرائی لیکن پھر بھی تیری بھولی صورت مجھے خوشی کا احساس دلاتی ہے۔ تیرے ساتھ میری صبح ہوتی ہے اور تیری یاد سے نیند آتی ہے۔ اے جان پدر اللہ تیرے بارے میری ہر دعا قبول کرے آمین۔
تیرے سے پہلے اتنی محبت میں نے صرف اپنے بھائی کے لئے محسوس کی۔ میرے خون نے اتنا جوش صرف اس کے لئے مارا۔ شائد میں اس کو کبھی نہ بتا سکوں کہ مجھے اس سے کتنی محبت ہے۔ ویسے ہی تجھے بھی نہ بتا پاوں کچھ عجب نہیں۔
اے میری جان جس دن سے تو پیدا ہوا ہے میں روزانہ تیرے لئے ایک دفعہ درود تاج پڑھ کر تیرے اکاونٹ میں جمع کر رہا ہوں تاکہ جب تو جوان ہو تو تیرے پاس اس قدر نیکیاں جمع ہوں کہ تیرے جیسا جوان جہان میں کوئی نہ ہو اور تیرے پر اللہ کی خصوصی نظر ہو۔ میں نے تجھے اس خدا کو سونپ دیا جس کے احاطہ سے کچھ باہر نہیں۔ تجھ پر میرا ایک ہی قرض ہے کہ میرے مرنے کے بعد تجھے روزانہ ایک دفعہ یہ پڑھ کر مجھے بخشنا ہو گا۔ 

Monday, March 25, 2013
خوشی


تو صاحبو خوشی غم کے برعکس میرے پر ایک دم طاری نہِں ہوتی۔ یہ کئی دن تک میرے سر کے اوپر گول گول گھومتی رہتی۔ پھر آہستی آہستہ جیسے ٹھنڈ اتری ویسے دھیرے دھیرے یہ نازل ہونا شروع ہوتی۔ پہلے ہلکی ہلکی دھیمی دھیمی محسوس ہوتی پھر اور زیادہ اور زیادہ حتی کہ میں شکر بجا لاتا۔

Sunday, March 24, 2013
جانور


تو صاحبو میں انسان نہیں جانوروں کا مجموعہ ہوں۔ میر اصلیت چوہے کی ہے۔ ڈرا سہما بزدل چوہا جسکو صرف اگلے وقت کی روٹی کی فکر ہوتی ہے۔ ہر ویلے صرف مناسب وقت کا انتظار کرنے والا۔ دوسرا بڑا جانور میرے اندر ایک کتا ہے جو ہر وقت یا تو غراتا رہتا ہے یا کسی کے آگے دم ہلاتا رہتا ہے۔ تیسری حالت کوئی نہِں۔ تیسرا جانور خنزیر ہے۔ ضد اور انا کا مارا ہوا۔ جو اپنے سے بڑھ کر کسی کو سوچ بھی نہیں سکتا۔ جو ہمیشہ خود کو بہتر اور برتر سمجھتا جو ہمیشہ دوسرے کے لئے وہ چیز مانگتا جو خود نہ چاہتا ہوں۔ اور آخری جانور ہے ایک بیل۔ بزدل چوہے سے غضبناک سانڈ کا سفر بڑا طویل ہے۔ اس میں کئی دفعہ برداشت کر کر کے ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بزدل چوہا پل بھر میں سانڈ کا روپ دھار لیتا اور پھر کیا نفع نقصان؟ 

Wednesday, March 20, 2013
غم


غم
قدرت اللہ شہاب لکھتا ہے کہ غم اس پر بوند بوند گرتا ہے۔ صاحب میرے ساتھ ایسا نہِں۔ غم مجھ پر ایک دم حملہ کر دیتا ہے۔ یہ مجھے اٹھا کر کبھی ادھر پٹختا ہے تو کبھی ادھر۔ میں بڑا روتا کرلاتا ہوں شکوے شکائیتیں کرتا ہوں۔ لیکن طوفان کب کسی کی سنتا؟ اچھی طرح مجھے دھونے کے بعد بھی غم غائب نہیں ہوتے۔ بس کچھ یوں ہوتا ہے کہ بندہ سمندری طوفان سے باہر نکلے تو اجلی جمکیلی دھوپ اور دور قوس قزاح کے سحر میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ بس ایسے ہی میں ہمک جاتا ہوں بہل جاتا ہوں۔ مجھے بڑی مہارت حاصل ہو گئی ہے غم کو چھپانے میں۔ چہرہ دھواں دھواں دیکھ کر کوئی پوچھ بھی لے کہ کیا ہوا تو میں بڑی جلدی ظاہری طور پر حاظر اور دماغی طور پر کہیں اور پہنچ جاتا ہوں۔

حبس
اور پھر حبس ہو جاتا ہے۔ بندر گھر نہِں بناتے بس درختوں پر لٹکتے رہتے۔ لہذا جب بارش سے پہلے بادل گرجتے ہیں تو یہ بڑا اچھٖتے کودتے چیختے چلاتے ہِں مگر جب بارش شروع ہو تو پھر بیٹھ کر بھیگتے ہیں اور اس کے ختم ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تو صاحب میرے اندر بھی حبس ہو جاتا ہے۔ کبھی کچھ دیکھ کر تو کبھی کچھ یاد کر کے۔ میں پھر اچھل کود کرتا ہوں۔ کبھی کہیں تو کبھی کہیں۔ اللہ بھلا کرے میرے سب دوست اس ٹیم غیب ہو جاتے ہیں۔ لہذا جب مجھے کوئی بندہ نہ ملے تو بارش شروع ہو جاتی ہے۔ آپ نے جنگل کی بارش دیکھی ہے؟ بالکل سیدھی گرتی ہے کوئی ہوا نہیں چلتی۔ بس بھیگئے اب اس بارش میں ایک آدھ دن۔ 

Tuesday, March 05, 2013
بلھا کیہ جاناں میں کون





بلھا کیہ جاناں میں کون

نہ میں مومن وچ مسیت آں
نہ میں وچ کفر دی ریت آں
نہ میں پاکاں وچ پلیت آں
نہ میں موسٰی، نہ فرعون

بلھا کیہ جاناں میں کون

نہ میں اندر وید کتاباں
نہ وچ بھنگاں، نہ شراباں
نہ وچ رِنداں مست خراباں
نہ وچ جاگن، نہ وِچ سون

بلھا کیہ جاناں میں کون

نہ وچ شادی نہ غمناکی
نہ میں وچ پلیتی پاکی
نہ میں‌ آبی نہ میں خاکی
نہ میں آتش نہ میں پون

بلھا کیہ جاناں میں کون

نہ میں عربی نہ لاہوری
نہ میں ہندی شہر نگوری
نہ ہندو نہ ترک پشوری
نہ میں رہندا وچ ندون

بلھا کیہ جاناں میں کون

نہ میں بھیت مذہب دا پایا
نہ میں آدم حوّا جایا
نہ میں اپنا نام دھرایا
نہ وِچ بیٹھن، نہ وِچ بھَون

بلھا کیہ جاناں میں کون

اوّل آخر آپ نوں جاناں
نہ کوئی دوجا ہور پچھاناں
میتھوں ہور نہ کوئی سیانا
بلھا! اوہ کھڑا ہے کون

بلھا کیہ جاناں میں کون
 

Friday, February 22, 2013
اوکھے پینڈے لمیاں راہواں عشق دیاں


اوکھے پینڈے لمیاں راہواں عشق دیاں 
درد جگر سخت سزاواں عشق دیاں
پھلاں ورگی جندڑی عشق رلاں چھڈدا
سر بازار چالے عشق نچا چھڈدا
ککھ نہ چھڈے دیکھ نہ وفاواں عشق دیاں
اوکھے پینڈے لمیاں راہواں عشق دیاں

سجناں باہجوں ذات صفاتاں عشق دیاں
وکھری کلی دن تے راتاں عشق دیاں
ہین چوداں طبقاں اندر تھاواں عشق دیاں
اوکھے پینڈے لمیاں راہواں عشق دیاں

ہر ہر دل ہر تھاں وچ عشق سمایا اے
عرش فرش تے عشق نے قدم ٹکایا اے
عین باطل عین الحق صداواں عشق دیاں
اوکھے پینڈے لمیاں راہواں عشق دیاں

عشق دی ہستی مستی یار مٹا دیوے
اگ ایہہ عشق دی دل تھی دوہی جلا دیوے
بلھے وانگ نچاوان تاراں عشق دیاں
اوکھے پینڈے لمیاں راہواں عشق دیاں