اوائل جوانی میں جب سوچنا شروع کیا تو ملکی حالات دیکھ کر سوچ کر گتھی یہ سلجھائی کہ ملک کا سب سے بیسک مسئلہ کیا ہے جو ایک چیز ایسی ہو کہ اس سے شروع ہو تو معاشرہ ٹھیک ہونا شروع ہو جائے میں نے تب لکھا تھا کہ ہمارا بنیادی مسئلہ "تلیم دی کمی" ہے
ہمارا دوسرا مسئلہ اپنے آپ کو برتر سمجھنا ہے ہر بندہ خود کو ہیرو اور عقل کل مانتا ہے دوسرے کی سننے کو تیار نہیں ہمارا دوسرا مسئلہ ایک دوسرے کو عزت نہ دینا ہے
عقل دانائی کسی کو کسی بھی عمر میں مل سکتی اس کے لئے بوڑھی عمر کا ہونا ضروری نہیں بلکہ احادیث میں تو قرب قیامت کی نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ جوانوں کے پاس پیسہ ہو گا اور بچے اپنے والدین سے زیادہ عقل مند ہونگے بڑھاپے میں آج کل ویسے بھی یادداشت کا مسئلہ ہو جاتا ہے جبکہ پہلے خالص خوراکوں کی وجہ سے بوڑھے پھر چار دن نکال جاتے تھے اور بچے عقلمند اس لئے بھی ہیں کہ معاشرہ جیسے نت نئی ٹیکنالوجی لا رہا بچے جلدی اڈاپٹ کر لیتے
اکثر پڑھے لکھے نفیس خاندان بھی اپنے سے کم عمر لوگوں کی بات سرے سے سیرئیس لیتے ہی نہیں بلکہ اگر کوئی چھوٹا بولے تو اس کو گستاخی شمار کرتے ہیں خاص طور پر پیشہ بہت اہمیت کا حامل ہے اگر کوئی کسی چھوٹی موٹی جاب پر لگا ہوا ہے تو چاہے اس کو آپ کے ابا جان سے بھی زیادہ علم ہو آپ اس کی بات نہیں سنیں گے اور اگر کوئی کسی اچھی پوسٹ پر ہے تو اماں کو ڈاکٹر کو دیکھانے سے پہلے بھاگ بھاگ کر اس سے مشورے کریں گے
میں اکثر سوشل ایکسپیریمںٹ کرتا رہتا ہوں ایک مزے کا ہے آپ بھی کیجئے کہیں کسی کا قول بغیر اس کے نام سے ایسے انداز میں لکھیں کہ آپ کی اپنی خرافات لگے
یہ ہمارے اکثر لوگ اشفاق احمد کو بہت کوٹ کرتے ہیں اس سے پہلے واصف علی واصف کے چھاپے لگاتے تھے یہ پڑھے لکھے بابو ان کو بابا بھی ایسا چاہئے جو کلف لگا سوٹ پہن کر اوپر واسکٹ عینک جمائے صاف ستھرے کپڑے گھر صوفے پر بیٹھا وعظ کر رہا ہو اور یہ جھوم جھوم کر عقل و خرد و دانش اپنے اندر اترتی محسوس کریں
اشفاق احمد جن بابوں کا ذکر کرتا ہے ہمارے بابو لوگ ان کے پاس جائیں تو ان کو ان بابوں میں کشف خاک نظر آنی ان کو ان بابوں کے میلے کپڑوں گندے ہاتھ پسینے کی سڑاند پاوں کی پھٹی ایڑیوں اور ٹوٹے جوتوں نے ایسا خائف کرنا کہ انہوں نے دل میں سوچنا ہنہ اس بندے کو اللہ نے عقل دی ہوتی تو یہ اس حال میں ہوتا؟
ہمارے پڑھے لکھے بابو لوگوں کو پراکسی چاہئے کہ عقل و دانش کسی ائیرکنڈیشنڈ ہال یا بیٹھک میں ایک صاف ستھرا بابا خوشبو لگائے بانٹ رہا ہو
ہمارا دوسرا مسئلہ اپنے آپ کو برتر سمجھنا ہے ہر بندہ خود کو ہیرو اور عقل کل مانتا ہے دوسرے کی سننے کو تیار نہیں ہمارا دوسرا مسئلہ ایک دوسرے کو عزت نہ دینا ہے
عقل دانائی کسی کو کسی بھی عمر میں مل سکتی اس کے لئے بوڑھی عمر کا ہونا ضروری نہیں بلکہ احادیث میں تو قرب قیامت کی نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ جوانوں کے پاس پیسہ ہو گا اور بچے اپنے والدین سے زیادہ عقل مند ہونگے بڑھاپے میں آج کل ویسے بھی یادداشت کا مسئلہ ہو جاتا ہے جبکہ پہلے خالص خوراکوں کی وجہ سے بوڑھے پھر چار دن نکال جاتے تھے اور بچے عقلمند اس لئے بھی ہیں کہ معاشرہ جیسے نت نئی ٹیکنالوجی لا رہا بچے جلدی اڈاپٹ کر لیتے
اکثر پڑھے لکھے نفیس خاندان بھی اپنے سے کم عمر لوگوں کی بات سرے سے سیرئیس لیتے ہی نہیں بلکہ اگر کوئی چھوٹا بولے تو اس کو گستاخی شمار کرتے ہیں خاص طور پر پیشہ بہت اہمیت کا حامل ہے اگر کوئی کسی چھوٹی موٹی جاب پر لگا ہوا ہے تو چاہے اس کو آپ کے ابا جان سے بھی زیادہ علم ہو آپ اس کی بات نہیں سنیں گے اور اگر کوئی کسی اچھی پوسٹ پر ہے تو اماں کو ڈاکٹر کو دیکھانے سے پہلے بھاگ بھاگ کر اس سے مشورے کریں گے
میں اکثر سوشل ایکسپیریمںٹ کرتا رہتا ہوں ایک مزے کا ہے آپ بھی کیجئے کہیں کسی کا قول بغیر اس کے نام سے ایسے انداز میں لکھیں کہ آپ کی اپنی خرافات لگے
یہ ہمارے اکثر لوگ اشفاق احمد کو بہت کوٹ کرتے ہیں اس سے پہلے واصف علی واصف کے چھاپے لگاتے تھے یہ پڑھے لکھے بابو ان کو بابا بھی ایسا چاہئے جو کلف لگا سوٹ پہن کر اوپر واسکٹ عینک جمائے صاف ستھرے کپڑے گھر صوفے پر بیٹھا وعظ کر رہا ہو اور یہ جھوم جھوم کر عقل و خرد و دانش اپنے اندر اترتی محسوس کریں
اشفاق احمد جن بابوں کا ذکر کرتا ہے ہمارے بابو لوگ ان کے پاس جائیں تو ان کو ان بابوں میں کشف خاک نظر آنی ان کو ان بابوں کے میلے کپڑوں گندے ہاتھ پسینے کی سڑاند پاوں کی پھٹی ایڑیوں اور ٹوٹے جوتوں نے ایسا خائف کرنا کہ انہوں نے دل میں سوچنا ہنہ اس بندے کو اللہ نے عقل دی ہوتی تو یہ اس حال میں ہوتا؟
ہمارے پڑھے لکھے بابو لوگوں کو پراکسی چاہئے کہ عقل و دانش کسی ائیرکنڈیشنڈ ہال یا بیٹھک میں ایک صاف ستھرا بابا خوشبو لگائے بانٹ رہا ہو