رات کے جانور تو ہم کافی عرصے سے ہیں۔ مگر رمضان میں ہم نے حد کی ہوئی ہے۔ ساری رات net چلاتے ہیں۔ سحری کے بعد کوئی 5:30 پر بستر کو رونق بخشتے ہیں اور 10 بجے برآمد ہو کر یونیورسٹی تشریف لے جاتے ہیں۔ آج ہمیں صبح 8 بجے ہی اٹھا دیا گیا کہ جاؤ چھوٹے بھائی کی سکول فیس جمع کرواؤ کوئی کام بھی کیا کرو۔
My Spaceکیشئیر کے سامنے کھڑے ہم اپنی باری کے انتظار میں تھے کہ ایسا لگا زمین ہل رہی ہے۔ ہم نے سوچا شائد نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے چکر آرہے ہیں۔ اب ہم نے کیشئیر کی طرف نظر ڈالی تو وہ جناب اپنی جگہ سے غائب۔ اور ہمارے آگے جو صاحب تھے وہ بھی غائب۔ اتنے میں سب سے زور کا جھٹکا آیا اور سکول کے pt master سب کو کہنے لگے کے باہر آجائیں۔ ہم چونکہ کافی رج کے ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں دوسرا بچپن سے بابا کو دیکھا ہے کہ زلزلہ آنے پر بڑے مزے سے اپنا کام کرتے رہتے ہیں اور دوسروں کی طرح بھاگنے کی نہیں کرتے۔ لہذا ہم وہیں کھڑے رہے۔ ہاں جب احساس ہوا پاگلوں کی طرح ہم ہی کیشئیر کاؤنٹر پر کھڑے ہیں تب کھسیانے ہو کر باہر نکل آئے۔
عجیب بدتمیز زلزلہ تھا۔ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ میں نے پہلی بار سکول کے اندر اتنے طاقتور اور بڑے درختوں کو اس طرح ہلتے دیکھا جیسے آندھی میں ہلتے ہیں۔ دوسری چیز جو آج میں نے دیکھی کہ سب کو کلمہ یاد آ گیا۔ ویسے بڑے بہادر بنتے ہیں مگر موت کا خوف ایسے جان نکالتا ہے کہ اپنا سب رعب اور بہادری بھول جاتے ہیں۔
انسان بے حد کمزور اور بےوقوف ہے۔ ساری زندگی دوسروں کا جینا اجیرن کئے رکھتا ہے مگر جب اپنی جان کا خوف لاحق ہو تو کلمے یاد آتے ہیں۔ بچ جانے پر بھی نہیں سدھرتا اور شکر کرتا ہے کہ میں نہیں مارا گیا۔ بالآخر مہلت ختم ہو جاتی ہے اور اوندھے منہ گرتا ہے۔