Pages

Wednesday, March 20, 2013
غم


غم
قدرت اللہ شہاب لکھتا ہے کہ غم اس پر بوند بوند گرتا ہے۔ صاحب میرے ساتھ ایسا نہِں۔ غم مجھ پر ایک دم حملہ کر دیتا ہے۔ یہ مجھے اٹھا کر کبھی ادھر پٹختا ہے تو کبھی ادھر۔ میں بڑا روتا کرلاتا ہوں شکوے شکائیتیں کرتا ہوں۔ لیکن طوفان کب کسی کی سنتا؟ اچھی طرح مجھے دھونے کے بعد بھی غم غائب نہیں ہوتے۔ بس کچھ یوں ہوتا ہے کہ بندہ سمندری طوفان سے باہر نکلے تو اجلی جمکیلی دھوپ اور دور قوس قزاح کے سحر میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ بس ایسے ہی میں ہمک جاتا ہوں بہل جاتا ہوں۔ مجھے بڑی مہارت حاصل ہو گئی ہے غم کو چھپانے میں۔ چہرہ دھواں دھواں دیکھ کر کوئی پوچھ بھی لے کہ کیا ہوا تو میں بڑی جلدی ظاہری طور پر حاظر اور دماغی طور پر کہیں اور پہنچ جاتا ہوں۔

حبس
اور پھر حبس ہو جاتا ہے۔ بندر گھر نہِں بناتے بس درختوں پر لٹکتے رہتے۔ لہذا جب بارش سے پہلے بادل گرجتے ہیں تو یہ بڑا اچھٖتے کودتے چیختے چلاتے ہِں مگر جب بارش شروع ہو تو پھر بیٹھ کر بھیگتے ہیں اور اس کے ختم ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تو صاحب میرے اندر بھی حبس ہو جاتا ہے۔ کبھی کچھ دیکھ کر تو کبھی کچھ یاد کر کے۔ میں پھر اچھل کود کرتا ہوں۔ کبھی کہیں تو کبھی کہیں۔ اللہ بھلا کرے میرے سب دوست اس ٹیم غیب ہو جاتے ہیں۔ لہذا جب مجھے کوئی بندہ نہ ملے تو بارش شروع ہو جاتی ہے۔ آپ نے جنگل کی بارش دیکھی ہے؟ بالکل سیدھی گرتی ہے کوئی ہوا نہیں چلتی۔ بس بھیگئے اب اس بارش میں ایک آدھ دن۔ 
Comments
0 Comments

0 تبصرے: