Pages

اسے بھول جا

کہاں آ کر رکے تھے رستے، کہاں موڑ تھا، اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ، جو نہیں ملا، اسے بھول جا

وہ تیرے نصیب کی بارشیں، کسی اور چھت پر برس گئیں
دل بے خبر میری بات سن، اسے بھول جا، اسے بھول جا
میں تو گم تھا تیرے دھیان میں، تیری آس میں، تیرے گمان میں
صبا کہہ گئی میرے کان میں، میرے پاس آ، اسے بھول جا

کسی آنکھ میں نہیں اشک غم، تیرے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بھلا دیا، تو بھی مسکرا، اسے بھول جا

نہ وہ آنکھ ہی تیری آنکھ تھی، نہ وہ خواب ہی، تیرا خواب تھا
دل منتظر تو یہ کس لئیے، تیرا جاگنا، اسے بھول جا

یہ جو دن رات کے ہے کھیل سا، اسے دیکھ، اس پہ یقین نہ کر
نہیں عکس کوئی مستقل، سر آئینہ، اسے بھول جا

جو بساط جہاں ہی الٹ گیا، وہ جو رستے سے پلٹ گیا
اسے روکنے سے حصول کیا، اسے مت بلا، اسے بھول جا



Comments
0 Comments

0 تبصرے: