آج ہمیں اس گھر میں آئے ہوئے 10 سال ہو گئے ہیں۔ پہلے ہم فلیٹ میں رہتے تھے۔ 10 سال پہلے اس گھر میں آ گئے کیونکہ وہ فلیٹ ذرا چھوٹا پڑ رہا تھا۔ 10 سال گزر چکے ہیں اور اب ہمیں یہ گھر بھی چھوٹا پڑ رہا ہے۔ ثابت ہوا انسان کو اتنا نہیں کھانا چاہئیے۔
ان فلیٹوں سے مسجد کافی دور تھی۔ سائرن کی آواز نہیں آتی تھی۔ ہاں چوکیدار صاحب 2 چکر میں سیٹی ذرا زور سے بجاتے تھے۔ انہوں نے عیدی کے لئے ثبوت بھی رکھنا ہوتا تھا نہ۔ جب اس گھر میں آئے تو پتہ چلا کہ سائرن کیا بلا ہے۔
My Space
مولوی حضرات کو کسی نے شائد ہماری شیطانی کی اطلاع کر دی تھی کہ انکا فلیٹ مسجد سے کافی دور ہے۔ اسکا بدلہ انہوں نے اس گھر کے دروازے پر مسجد بنا کر لیا۔ اچھی بھلی 20 فٹ دور ہوتی تھی۔ یہ لوگ گھسیٹ کر ہمارے دروازے تک لے آئے۔ دادا جان گورنمنٹ ملازم تھے انہوں نے انکوائری کروائی تو پتہ چلا یہ جگہ چلڈرن پارک تھا جس پر اس طرح قبضہ کیا گیا ہے۔ ہمارے خیال سے مذہبی غنڈہ گردی کی یہ ایک اور مثال ہے۔
یہاں آنے کے بعد جب ماہ رمضان آیا تو سحری کے وقت ایک اور چیز کا تجربہ ہوا وہ تھا 'ایک پیپے والا' یہ حضرت گھی کا خالی کنستر لے کر اسکو اسٹک سے بجاتے ہیں اور زور زور سے بولتے جاتے ہیں اٹھو اور سحری کر لو۔
اب بچھلے سال ان صاحب کے شریک ایک ڈھول والے بھی بن گئے ان صاحب نے ایک ڈھول لے کر اسکو سحری کے وقت بجا بجا کر لوگوں کو اٹھانا شروع کیا۔ عید پر جو تماشا ہوا ان دونوں کا کہ بس۔ عید ہوئی، سب لوگ عید کی نماز پڑھ کر آئے۔ تھوڑی دیر بعد ڈھول والے صاحب نازل ہو گئے اور انہوں نے سب گھروں سے عیدی لینی شروع کر دی۔ سب لوگوں نے خوشی خوشی دے دی۔ اتنے میں وہی 'پیپے والے' حضرت بھی تشریف لے آئے اب لوگ کہیں ہم نے سحری والے کے عیدی دے دی ہے اور وہ کہیں نہیں مجھے ملی ہی نہیں۔ خیر کافی بک جھک کے بعد دونوں کو دے دلا کر بھگتایا۔
اس دفعہ بھی دونوں اپنا اپنا کام زور و شور سے کر رہے ہیں۔ ہاں ایک فرق ہے کہ دونوں اپنی اپنی پبلسیٹی بھی کرتے جاتے ہیں۔ ایک صاحب ارشاد فرماتے ہیں " باؤ پیپے والا آگیا اٹھو اور روزہ رکھو" دوسرے صاحب کا فرمان ہے "سردار ڈھول والا آگیا سب توں پرانا سحری ویلے اٹھان آ لا" اب دیکھئیے اس عید پر دونوں کیا کرتے ہیں اور لوگ کیا کرتے ہیں۔ ہمیں تو ڈر ہے اس دفعہ عید کی نماز سے پہلے ہی نہ تشریف لے آئیں۔
اس دفعہ مسجد میں بھی کچھ ہوا ہے۔ کوئی صاحب شائد زندگی سے تنگ آ گئے ہیں یا نیند نہ آنے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ یہ صاحب پورے 3 بجے سائرن بجانا شروع کر دیتے ہیں اور بس پھر کم از کم 2 منٹ تک بجاتے رہتے ہیں۔ اس وقت ہم net کو چپکے ہوتے ہیں اور دل چاہتا ہے کہ جا کر ان صاحب کا رخ روشن سرخ کر دیں مگر کیا کریں ہم پر فتویٰ لگ جانا ہے کہ ساری زندگی مسجد میں گھسا نہیں اب مذہب میں دخل دے رہا ہے۔
ہماری تو یہی دعا ہے کہ اللہ مولوی حضرات کو عقل سے نوازے ۔ اور انکی عقل پر جو پتھر پڑے ہوئے ہیں وہ دور ہو جائیں۔ اور انکو سمجھ آ جائے کہ ساری قوم 30 منٹ میں بھی سحری تیار کر کے کھا سکتی ہی اس میں 3 بجے ہی شور مچانے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر نیند نہیں آرہی تو نیند کی گولیاں کھا کر سونا چاہئیے
ان فلیٹوں سے مسجد کافی دور تھی۔ سائرن کی آواز نہیں آتی تھی۔ ہاں چوکیدار صاحب 2 چکر میں سیٹی ذرا زور سے بجاتے تھے۔ انہوں نے عیدی کے لئے ثبوت بھی رکھنا ہوتا تھا نہ۔ جب اس گھر میں آئے تو پتہ چلا کہ سائرن کیا بلا ہے۔
My Space
مولوی حضرات کو کسی نے شائد ہماری شیطانی کی اطلاع کر دی تھی کہ انکا فلیٹ مسجد سے کافی دور ہے۔ اسکا بدلہ انہوں نے اس گھر کے دروازے پر مسجد بنا کر لیا۔ اچھی بھلی 20 فٹ دور ہوتی تھی۔ یہ لوگ گھسیٹ کر ہمارے دروازے تک لے آئے۔ دادا جان گورنمنٹ ملازم تھے انہوں نے انکوائری کروائی تو پتہ چلا یہ جگہ چلڈرن پارک تھا جس پر اس طرح قبضہ کیا گیا ہے۔ ہمارے خیال سے مذہبی غنڈہ گردی کی یہ ایک اور مثال ہے۔
یہاں آنے کے بعد جب ماہ رمضان آیا تو سحری کے وقت ایک اور چیز کا تجربہ ہوا وہ تھا 'ایک پیپے والا' یہ حضرت گھی کا خالی کنستر لے کر اسکو اسٹک سے بجاتے ہیں اور زور زور سے بولتے جاتے ہیں اٹھو اور سحری کر لو۔
اب بچھلے سال ان صاحب کے شریک ایک ڈھول والے بھی بن گئے ان صاحب نے ایک ڈھول لے کر اسکو سحری کے وقت بجا بجا کر لوگوں کو اٹھانا شروع کیا۔ عید پر جو تماشا ہوا ان دونوں کا کہ بس۔ عید ہوئی، سب لوگ عید کی نماز پڑھ کر آئے۔ تھوڑی دیر بعد ڈھول والے صاحب نازل ہو گئے اور انہوں نے سب گھروں سے عیدی لینی شروع کر دی۔ سب لوگوں نے خوشی خوشی دے دی۔ اتنے میں وہی 'پیپے والے' حضرت بھی تشریف لے آئے اب لوگ کہیں ہم نے سحری والے کے عیدی دے دی ہے اور وہ کہیں نہیں مجھے ملی ہی نہیں۔ خیر کافی بک جھک کے بعد دونوں کو دے دلا کر بھگتایا۔
اس دفعہ بھی دونوں اپنا اپنا کام زور و شور سے کر رہے ہیں۔ ہاں ایک فرق ہے کہ دونوں اپنی اپنی پبلسیٹی بھی کرتے جاتے ہیں۔ ایک صاحب ارشاد فرماتے ہیں " باؤ پیپے والا آگیا اٹھو اور روزہ رکھو" دوسرے صاحب کا فرمان ہے "سردار ڈھول والا آگیا سب توں پرانا سحری ویلے اٹھان آ لا" اب دیکھئیے اس عید پر دونوں کیا کرتے ہیں اور لوگ کیا کرتے ہیں۔ ہمیں تو ڈر ہے اس دفعہ عید کی نماز سے پہلے ہی نہ تشریف لے آئیں۔
اس دفعہ مسجد میں بھی کچھ ہوا ہے۔ کوئی صاحب شائد زندگی سے تنگ آ گئے ہیں یا نیند نہ آنے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ یہ صاحب پورے 3 بجے سائرن بجانا شروع کر دیتے ہیں اور بس پھر کم از کم 2 منٹ تک بجاتے رہتے ہیں۔ اس وقت ہم net کو چپکے ہوتے ہیں اور دل چاہتا ہے کہ جا کر ان صاحب کا رخ روشن سرخ کر دیں مگر کیا کریں ہم پر فتویٰ لگ جانا ہے کہ ساری زندگی مسجد میں گھسا نہیں اب مذہب میں دخل دے رہا ہے۔
ہماری تو یہی دعا ہے کہ اللہ مولوی حضرات کو عقل سے نوازے ۔ اور انکی عقل پر جو پتھر پڑے ہوئے ہیں وہ دور ہو جائیں۔ اور انکو سمجھ آ جائے کہ ساری قوم 30 منٹ میں بھی سحری تیار کر کے کھا سکتی ہی اس میں 3 بجے ہی شور مچانے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر نیند نہیں آرہی تو نیند کی گولیاں کھا کر سونا چاہئیے